Roshan Saye Welfare Foundation
2-Court Street 26 Lower Mall Lahore


Rafiq Ahmed Bajwa and Justice Samdani Tribunal 31 May 1974

31 مئی 1974ءکو وزیر اعلیٰ پنجاب مسٹر حنیف رامے نے ربوہ ریلوے اسٹیشن کے واقعہ کی تحقیقات کے لیے لاہور ہائی کورٹ کے مسٹر جسٹس خواجہ محمد احمد صمدانی پر مشتمل یک رکنی ٹربیونل کا اعلان کیا۔ حکومت پنجاب کے مقرر کردہ ٹربیونل کے دائرہ کار میں یہ بات شامل تھی کہ وہ ربوہ ریلوے اسٹیشن کے واقعہ اور اس سے متعلقہ دوسرے معاملات کی تحقیقات کے بعد یہ بتائے گا کہ اس سانحہ کی انفرادی اور اجتماعی طور پر ذمہ داری کن پر عائد ہوتی ہے۔ ٹربیونل مجرموں کے خلاف مناسب کاروائی کی سفارش بھی کرے گا اور اپنی رپورٹ جتنی جلدی ممکن ہوگا، پیش کرے گا۔ پنجاب حکومت کے ایک ہینڈ آئوٹ کے مطابق لاہور ہائی کورٹ کی معائنہ ٹیم کے رکن مسٹر خضر حیات، ایڈووکیٹ جنرل پنجاب مسٹر عبدالستار نجم اور جناب کمال مصطفی بخاری اسسٹنٹ ایڈووکیٹ جنرل پنجاب تحقیقات کے سلسلہ میں ٹربیونل کی معاونت کریں گے۔ یکم جون 1974ءکو وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے عوام سے اپیل کی کہ وہ حکومت کے ساتھ تعاون کرتے ہوئے امن و امان قائم رکھیں۔ تمام شہریوں کو صمدانی تحقیقاتی رپورٹ کا انتظار کرنا چاہیے۔ یہ رپورٹ موصول ہونے پر شائع کر دی جائے گی۔جسٹس کے ایم اے صمدانی نے تحقیقاتی ٹربیونل کا نوٹیفیکیشن جاری ہونے کے بعد فوری طور پر اس سانحہ کی تحقیقات شروع کر دیں۔ اس سلسلہ میں وقوعہ کے روز ڈیوٹی پر متعین ریلوے اسٹیشن کے عملے اور میڈیکل کالج کے طلبہ اور سٹاف وغیرہ کو نوٹس بھیجے گئے کہ وہ آ کر اپنے بیان ریکارڈ کروائیں۔ اس کے علاوہ عام افراد سے بھی کہا گیا کہ و ہ اپنا بیان زبانی یا تحریری طور پر ٹربیونل کے روبرو پیش کر سکتے ہیں۔ عدالت میں ہائی کورٹ بار کے درج ذیل ارکان، مختلف تنظیموں کی وکالت کے لیے موجود تھے۔ جماعت اسلامی کی طرف سے مسٹر ایم انور اور ایم اے رحمان ایڈووکیٹ، مجلس تحفظ ختم نبوت کی طرف سے قاضی محمد سلیم ایڈووکیٹ، قادیانی محاسبہ کمیٹی اور پاکستان اتحاد پارٹی کی طرف رفیق احمد باجوہ ایڈووکیٹ، ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن وکلا کی رابطہ کمیٹی کی طرف سے محمد اسماعیل قریشی ایڈووکیٹ اور چوہدری نذیر احمد خاں ایڈووکیٹ، حکومت پنجاب کی طرف سے مسٹر کمال مصطفی بخاری اسسٹنٹ ایڈووکیٹ جنرل اور قادیانی جماعت کی طرف سے اعجاز حسین بٹالوی ایڈووکیٹ اور مسٹر بشیر احمد ایڈووکیٹ پیش ہوئے۔
Share on Google Plus

About roshansaaye.org

0 comments:

Post a Comment